رضاعی بھائی کے باقی بہن بھائیوں سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟
    تاریخ: 17 نومبر، 2025
    مشاہدات: 2
    حوالہ: 140

    سوال

    ایک عورت نے اپنے بھائی کی بیٹی کو دودھ پلایا اور اس وقت عورت مذکور کے ہاں بھی لڑکی تھی یعنی جس عورت نے دودھ پلایا تھا ۔اب اس لڑکی کے بعد پھر عورت مذکور کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور عورت مذکور کے بھائی کے ہاں پھر بیٹی ہوئی اور اس کے بعد عورت مذکور کے بھائی کے ہاں پھر تیسری بھی بیٹی پیدا ہوئی اب عورت مذکور اپنے بھائی کے ہاں اس لڑکی کا اپنے بیٹے کے لیے رشتہ مانگ رہی ہے جب کہ لڑکے نے اپنی ممانی کا دودھ نہیں پیا اور نہ ہی اس لڑکی نے اپنی پھو پھو یعنی باپ کی سگی بہن کا دودھ بھی نہیں پیا۔کیا ان دونوں کا رشتہ یعنی عقد نکاح ہوسکتا ہے کہ نہیں؟قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائ فرمائیں شکریہ ۔

    سائل: عبداللطیف عطاری ،کراچی۔

    بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

    اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں عقد نکاح جائز ہے۔ کیونکہ رضاعی ماں باپ کی اولاد پر صرف یہ بچہ یا بچی جس نے دودھ پیا ہے حرام ہے ،اس کے باقی بھائی بہن مرضعہ (دودھپلانے والی) کے اصول و فروع حرام نہیں بشرطیکہ حرمت کا کوئی اور سبب موجود نہ ہو۔

    علامہ محمد بن علی علاؤ الدین الحصکفی (المتوفی:1088ھ) فرماتے ہیں: "(وَتَحِلُّ أُخْتُ أَخِيهِ رَضَاعًا) يَصِحُّ اتِّصَالُهُ بِالْمُضَافِ كَأَنْ يَكُونَ لَهُ أَخٌ نَسَبِيٌّ لَهُ أُخْتٌ رَضَاعِيَّةٌ، وَبِالْمُضَافِ إلَيْهِ كَأَنْ يَكُونَ لِأَخِيهِ رَضَاعًا أُخْتٌ نَسَبًا وَبِهِمَا وَهُوَ ظَاهِرٌ".ترجمہ: حقیقی بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح جائز ہے، اس کلام (یعنی رَضَاعًا)کا اتصال مضاف (یعنی أُخْتُ)کے ساتھ صحیح ہے ،جس طرح اس کے نسبی بھائی کی رضاعی بہن ہو اور اس کا اتصال مضاف الیہ (یعنی أَخِيهِ)کے ساتھ بھی صحیح ہے جس طرح اس کے رضاعی بھائی کی نسبی بہن ہو یا مضاف (یعنی أُخْتُ)اور مضاف الیہ (یعنی أَخِيهِ)دونوں کے ساتھ اتصال ہو اور وہ ظاہر ہےیعنی رضاعی بھائی کی رضاعی بہن ہو۔(الدر المختار،کتاب النکاح،باب الرضاع،3/217،دار الفکر)

    یعنی حقیقی بھائی کی رضاعی بہن یا رضاعی بھائی (مثلا زید نے ہندہ کا دودھ پیا تو ہندہ کا بیٹا زید)کی حقیقی بہن یا رضاعی بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح جائز ہے۔

    امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن (المتوفی:1340ھ) سے سوال کیا گیا کہ زید بکر کا چازاد بھائی ہے اور رضاعی بھی۔ زید کا صرف ایک حقیقی چھوٹا بھائی ہے اور بکر کا ایک چھوٹا بھائی اور ایک بہن، جو حقیقی ہیں اور بکر کی بہن دونوں بھائیوں سے چھوٹی ہے، تو زید کے چھوٹے بھائی کا نکاح بکر کی چھوٹی بہن سے جائز ہے یا نہیں ؟ ، چونکہ زید اور بکر آپس میں رضاعی بھائی ہیں۔

    آپ علیہ الرحمہ نے جواب میں لکھا:’’بکرنے اگر زید کی ماں کا دودھ پیا ہے تو زید اور اس کا بھائی بکر کے بھائی ہوئے نہ کہ خواہر بکر کے اور اگر زید نے بکر کی ماں کا دودھ پیا ہے تو یہ خواہر بکر کا بھائی ہو ا نہ کہ زید کا بھائی، بہرحال زیدکے بھائی اوربکر کی بہن میں نکاح جائز ہے لقولھم تحل اخت اخیہ رضاعاً (فقہاء کے قول کے مطابق بھائی کی رضاعی بہن حلال ہے‘‘۔(فتاوی رضویہ،11/479،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

    مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب فرماتے ہیں:’’رضاعت (دودھ شریک) رشتہ دونوں طرف سے متعدی نہیں ہوتا بلکہ ایک جانب سے متعدی ہوتا ہے، یعنی جس بچی یا بچے نے کسی عورت کا دودھ مدت رضاعت (ڈھائی سال کی عمر تک ) پیا ہے، اس دودھ پینے والے بچے پر رضاعی ماں باپ کی ساری اولاد ، خواہ دودھ پینے سے پہلے کی ہو یا بعد کی، اس کے موجودہ شوہر سے یا دوسرے شوہر سے، وہ سب اس دودھ پینے والے کے لئے رضاعی بہن بھائی ہو گئے اور ان میں سے کسی کی شادی اس دودھ پینے والے سے نہیں ہو سکتی۔ جبکہ رضاعی ماں باپ کی اولاد پر صرف یہ بچہ یا بچی حرام ہے، جس نے دودھ پیا ہے، اس کے باقی بہن بھائی حرام نہیں ہیں (بشرطیکہ حرمت کا کوئی اور سبب نہ ہو ) ۔ اسی طرح دودھ پینے والے بچے کے دوسرے بہن بھائی جنہوں نے اس عورت کا دودھ نہیں پیا، ان کے ساتھ اس خاتون کی اولاد کا رضاعت کا کوئی رشتہ نہیں ہے، لہذا ان کے ساتھ بھی اس خاتون کی اولاد کا نکاح جائز ہے‘‘۔(تفہیم المسائل،5/363،ضیاء القرآن پبلی کیشنر)۔

    واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

    کتبـــــــــــــــہ: ابو امیر خسرو سید باسق رضا

    الجواب صحیح : ابوالحسنین مفتی وسیم اختر المدنی

    تاریخ اجراء:27 رمضان المبارک1444 ھ/18 مارچ2023ء