سوال
زید ایک کمپنی میں کام کرتا ہے ،جس کی ماہانہ سیلری 26000ہزار روپے ہے،جس میں سے24000 ہزار روپے کمپنی اسے ہر ماہ دیتی ہے جبکہ2000 ہزار روپے اپنے پاس روکے رکھتی ہےجو کہ سال کے اختتام پر اجیر کو کچھ اضافاتکے ساتھ دیے جاتی ہے۔اس میں ہمیں کچھ اختیار نہیں کہ ہم چاہ کر بھی اپنی فلسیلری (26000) نہیں لے سکتے ۔
جو سیلری کمپنی اپنے پاس رکھتی ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کمپنی وہ بینک میںرکھواتی ہے،اور اس پر جو منافع آتےہیں جنھیں اختتامِ سال پر تمام اجیروں کے مابین ان کی مابقی اجرت کے ساتھ تقسیم کرتی ہے ۔
سوال طلب امر یہ ہے کہ اجیروں کو اختتام ِ سال پر اپنی مابقی رقم کے ساتھ اوپراوپر والی رقم لینا شرعا جائز ہے کہ نہیں ؟
سائل:علامہ غلام قادرعلی قادری(مظفر آباد،آزادکشمیر)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سوال طلب امر کاتعلق جی پی فنڈ/ پراویڈنٹ فنڈسےہے ،جس کا حکمِ شرعی دو صورتوں پر مشتمل ہے:
1:۔اگر اس فنڈ کا حصہ بننا جبری ہو جیسا کہ پوچھی گئی صورت میں کہااجیر کے ماہانہ اجارے سے وہ رقم بلا اجازت کاٹ لی جاتی ہےجس کا اسے کوئی اختیار نہیں ،فقہائےکرام نے اس صورت میں فنڈ لینے کو جائز قرار دیا ہےکہ یہاں پر مابقی رقم کے ساتھ ملنے والی زئد رقم کی حیثیت تبرع کی ہے جسےاجیر اپنے حق میں انعام سمجھے ۔
2:۔اگر حصہ بننا اختیاری ہو ، یوں کہاجیرکو اختیار دیا جاتا ہو کہ اپنی ماہانہ سیلری کے ایک مخصوص حصے کی کٹوتی کروائےیا نہ کروائے ۔جی پی فنڈ کی یہ صورت ناجائزو حرام اور سود ہے کہ یہاں پر جورقم اجیر اپنی مرضی سے کٹواتا ہے اس کی حیثیت قرض کی ہے یعنی وہ رقم کمپنی کے پاس بطور قرض محفوظ ہے جو کہ ایک مخصوص مدت تک اجیر کونفع کے ساتھ ملتیہے اورقرض پر نفع لینا سود ہے ۔حدیث پاک ہے:کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا ہر وہ قرض جس سے منفعت کا حصول ہو سود ہے۔(مسند الحارث رقم الحدیث :437) واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:محمد یونس انس القادری
الجـــــواب صحــــيـح:ابو الحسنينن مفتي وسيم اخترالمدني
تاريخ اجراء: 16 جمادی الاول1442ھ/01جنوری2021