سوال
ایک گلی میں دو دکانیں ہیں :۔راشن شاپ ، واٹر سپلائی ۔2:۔جنرل اسٹور و واٹر سپلائی
ایک دکان والے کی آمدنی اچھی ہے اور وہ صاحبِ استظاعت بھی ہے تو وہ لوگوں کو ادھار چیزیں دیتا ہے تاکہ لوگ اس کے کسٹمر بنیں گے اور لوگوں کے دروازے پر جاتا ہے کہ مجھ سے پانی لو !!
اور میری دکان پر آ کر چیلنج کر کے بولتا ہے کہ لوگ مجھ سے ہی پانی بھروائیں گے ۔۔اور کئی بار مجھ پر لاتوں ،مکوں اور گلہ دبا کر حملے کر چکا ہے میں چاہتا ہوں کہ واٹر سپلائی کی چین اور حدود متعین کی جائیں تاکہ ہم اپنے علاقے میں پانی دیں !!
آپ قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جواب عنایت فرمائیں !
سائل:امجد حسین /کیماڑی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
وہ دکان دار جو لوگوں کو ادھار دیتا ہے تاکہ اس کے کسٹمر بڑھیں تو یہ طریقہ عمل جائز ہے لیکن یہ ادھار دینا اس نیت سے ہو کہ دوسرے دوکاندار کو نقصان پہنچےتو یہ درست نہیں ۔
حدیث پاک ہے: انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرء مانوی ترجمہ:اعمال کامدار نیات پر ہے اور ہر آدمی کا حکم اس کی نیت کے مطابق ہے۔ (صحیح البخاری باب کیف کان بدء الوحی جلد01صفحہ02قدیمی کتب خانہ کراچی )
اگر اس دوکاندار نے واقعی ماراپیٹا تو یہ ظلم و زیادتی ہے جس پر بڑی سخت قسم کی وعیدیں ہیں اس دوکاندار کو چاہیے کہ دوسرے دوکاندار جس کو مارا اس سے معافی مانگے کہ قیامت کے روز حساب سخت ہو گا وہاں حساب نہ دے پائے گا اور آئندہ اس طرح کی حرکت سے باز رہے۔
ظلم کرنے والوں کے بارے میں ارشاد ربانی ہے: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ترجمہ: مُواخَذہ تو انھیں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔(الشورٰی:42)
ایک اور مقام پر ارشاد ِربّانی ہے : وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُمْ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍترجمہ: اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ مددگار ۔(الشورٰی:08)
سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ مظلوم کی بد دُعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی حقدار کو اس کے حق سے منع نہیں کرتا۔(کنزالعمال،حدیث: 7594)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ، “ مظلوم کی بد دعا مقبول ہےاگرچہ وہ فاجر ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس کا فجور تو اس کی اپنی جان پرہے۔ (ترغیب والترہیب ، حدیث : 18)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَافَسُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَکُونُوا عِبَادَ اﷲِ إِخْوَانًا۔ترجمہ:بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو، حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ۔(مسلم، الصحیح، 4: 1986، رقم: 3652)
سائل کو یاد رکھنا چاہیے کہ رازق ومالک اللہ تبارک وتعالی کی ذات مقدس ہے وہ رزق جو آپ کے مقدر میں ہے وہ کوئی لاکھ روکنا چاہیے نہیں روک سکتا اور جو مقدر میں نہیں کوئیلاکھ زور لگائے آپ تک پہنچا نہیں سکتا ۔
اللہ جل شانہ کا فرمان ہے :وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ-كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ۔ترجمہ: کنزالعرفان :اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو اور وہ ہرایک کے ٹھکانے اور سپرد کئے جانے کی جگہ کو جانتا ہے ۔ سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔ (الھود:06)
اللہ جل شانہ کا فرمان ہے :وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ-اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖؕ-قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا۔ترجمہ : جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنادے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے بیشک اللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے۔ (اطلاق:2۔3)
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لو أنكم كنتم توَكَّلُون على الله حق توَكُّلِهِ لرزقكم كما يرزق الطير، تَغْدُو خِمَاصَاً، وتَرُوحُ بِطَاناَ۔ترجمہ: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم اللہ پر ویسے بھروسہ کرو جیسا کہ بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ حال واپس آتے ہیں۔(رواه الترمذي وابن ماجه وأحمد)واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:محمد یونس انس القادری
الجـــــواب صحــــيـح:ابو الحسنينن مفتي وسيم اخترالمدني
تاريخ اجراء: 15رجب المرجب 1444 ھ/03فروری 2023 ء