سوال
میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ تم نے ماں باپ کے گھر نہیں جانا ۔میں تمہیں خود چھوڑ کر آوں گا اور لینے بھی خود آوں گا اور اگر جاو تو مجھے بتا کر جانا ،لیکن کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ بیوی اس فلاں کے گھرگئی تو میں نے اسے ڈرانے دھمکانے کے لیےمیسج پہ لکھا:نبیلہ فرزند علی طلاق طلاق طلاق ۔ پھر فورًا میسج ڈیلیٹکر دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ طلاق ہو جائے لیکن میسج بیوی نے پڑھ لیا اور آگے گھ والوں کو بتا دیا یہاں تک سب رشتہ داروں میں یہ خبر پھیلگئی ۔۔
نوٹ:شوہر سے بات ہوئی تو اس نے حلفًا کہا کہ یہ جملہ محض ڈرانے دھمکانے کے طور پر تھامیری طلاق دینے کی نیت نہ تھی اسی لیے اپنے تائیں صرف طلاق طلاق طلاق لکھا ۔۔دی یا دے رہا ہوں کا اضافہ نہ کیا ۔۔
سائل:اسامہ عارف
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر معاملہ واقعی ایسا ہے جیسا شوہر نے حلفا ذکر کیا کہ اس میسج سے میری نیت طلاق کا نہ تھی بلکہ محض ڈرانے دھمکانے کے طور پر یہ میسج کیا تو اس صورت میںطلاق نہیں ہوئی ۔
اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ میسج پر دی جانے والی طلاق ،طلاقِ غیر مرسومہ (اس کی تعریف آگے آ رہی ہے)۔جس میں نیتِ طلاق کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی جیسا کہ اس مسئلہ میں کہ شوہر حلفا ًنیت طلاق کی نفی کر رہا ہے ۔۔۔
وہ تحریری طلاق جو واضحنظر آئےاور پڑھنے سمجھنےکے لائق ہو ،اس میں شوہر کینیت معتبر ہونے نہ ہونے کے لحاظ سےدو صورتیں ہیں:
1:۔مرسومہ۔2:۔ غیر مرسومہ
مرسومہ
اس سے مراد وہ طلاق ہے جو عرف و عادت میںخاص ورق پر طلاق کے عنوان کے ساتھ دیجائے ، جیسا کہ فی زمانہ طلاق نامہ جوکورٹ وٖغیرہ سے بنوایا جاتا ہے ۔رد المحتار میں ہے :أَنْ یَکُونَ مُصَدَّرًا وَمُعَنْوَنًا مِثْلُ مَا یُکْتَبُ إلَی الْغَائِبِ۔ترجمہ:( اس سے مراد وہ تحریری طلاق ہے) جو باقاعدہ صادرکی جاتی ہو اور اس میں طلاق کاعنوان ہو جیسے وہ( خط ) جو غائب شخص کولکھا جاتا ہے (یعنی اس میں عنوان ،نام دستخط وغیرہ ہوتے ہیں )۔( رد المحتار علی الدر المختار کتاب الطلاق مطلب فی الطلاق بالکتابۃ جلد3،صفحہ 246،بیروت)
غیر مرسومہ
أَنْ لَا یَکُونَ مُصَدَّرًا وَمُعَنْوَنًا۔ترجمہ:(اس سے مرادوہ تحریریطلاق)جو باقاعدہ طور پر صادر نہ کی جاتی ہو اور اس میں طلاق کا عنوان نہ ہو۔( رد المحتار علی الدر المختار کتاب الطلاق مطلب فی الطلاق بالکتابۃ جلد3،صفحہ 246،بیروت)
علامہ زیلعی علیہ الرحمہ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں کتابتِ طلاق کی اقسام اور ان کے احکامذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:الْكِتَابُ عَلَى ثَلَاثِ مَرَاتِبَ مُسْتَبِينٌ مَرْسُومٌ، وَهُوَ أَنْ يَكُونَ مُعَنْوَنًا أَيْ مُصَدَّرًا بِالْعِنْوَانِ، وَهُوَ أَنْ يَكْتُبَ فِي صَدْرِهِ مِنْ فُلَانٍ إلَى فُلَانٍ عَلَى مَا جَرَتْ بِهِ الْعَادَةُ فِي تَسْيِيرِ الْكِتَابِ فَيَكُونُ هَذَا كَالنُّطْقِ فَلَزِمَ حُجَّةً، وَمُسْتَبِينٌ غَيْرُ مَرْسُومٍ كَالْكِتَابَةِ عَلَى الْجُدْرَانِ وَأَوْرَاقِ الْأَشْجَارِ أَوْ عَلَى الْكَاغَدِ لَا عَلَى وَجْهِ الرَّسْمِ فَإِنَّ هَذَا يَكُونُ لَغْوًا لِأَنَّهُ لَا عُرْفَ فِي إظْهَارِ الْأَمْرِ بِهَذَا الطَّرِيقِ فَلَا يَكُونُ حُجَّةً إلَّا بِانْضِمَامِ شَيْءٍ آخَرَ إلَيْهِ كَالنِّيَّةِ وَالْإِشْهَادِ عَلَيْهِ وَالْإِمْلَاءِ عَلَى الْغَيْرِ حَتَّى يَكْتُبَهُ لِأَنَّ الْكِتَابَةَ قَدْ تَكُونُ لِلتَّجْرِبَةِ، وَقَدْ تَكُونُ لِلتَّحْقِيقِ.وَبِهَذِهِ الْأَشْيَاءِ تَتَعَيَّنُ الْجِهَةُ، وَقِيلَ الْإِمْلَاءُ مِنْ غَيْرِ إشْهَادٍ لَا يَكُونُ حُجَّةً، وَالْأَوَّلُ أَظْهَرُ، وَغَيْرُ مُسْتَبِينٍ كَالْكِتَابَةِ عَلَى الْهَوَاءِ أَوْ الْمَاءِ، وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ كَلَامٍ غَيْرِ مَسْمُوعٍ، وَلَا يَثْبُتُ بِهِ شَيْءٌ مِنْ الْأَحْكَامِ، وَإِنْ نَوَى ترجمہ:کتابتِ طلاق تین اقسام پر ہے ۔(1)مستبین مرسوم: یہ وہ ہے جس میں طلاق کا عنوان یعنی جو طلاق کے عنوان کے ساتھ صادر کی جائے ،وہ یوں کہ تحریر کی ابتدا میں لکھا جاتا ہے کہ فلاں کی جانب سے فلاں کی طرف (یہ خط)اس کے مطابق جس کی کتابت کے چلانے میں عادت جاری ہے،پس یہ بولنے کی طرح ہے،لہذا اس میں لامحالہ طلاق لازم آئے گی ۔اور(2)مستبین غیر مرسوم جیسے دیوار،درختوں کے پتوں پر لکھنا یاپھرکاغذ پر غیر رسمی طور پر لکھنا،پس یہ صورتلغو ہو گی،کیوں کہ اس طریق پر معاملہ ظاہر کرنے میں کوئی عرف نہیں ہے ۔پس یہ (صورت ،وقوعِ طلاق کے بارے میں )حجت نہیں ہوگی مگر یہ کہ جب اس کے ساتھ کوئی دوسری چیز شامل ہو جائے جیسے نیت، طلاق پرگواہ بنانا،اور کسی اور سے املا کروانا یہاں تک وہ اس کو لکھ دے ۔کیوں کہ کتابت کبھی تجربہ کے لیے اور کبھی تحقیق کے لیے بھی ہوتی ہے۔اور ان چیزوں سے جہت متعین ہو جائے گی ۔اور( 3)غیر مستبین جیسے ہوا یا پانی پر لکھنا ،یہ بمنزلہ کلام غیر مسموع کے ہے ،اور احکام میں سے کوئی چیز اس سے ثابت نہیں ہو گی،اگرچہ نیت بھی کرلے ۔( تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ،جلد6،صفحہ 218 المطبعة الكبرى الأميرية)
اس کے تحت علامہ شہاب الدين حمد بن محمد چلپی لکھتے ہیں :الْمَقْصُودُ مِنْ الْمَرْسُومِ أَنْ يَكُونَ عَلَى الْوَجْهِ الْمُعْتَادِ فِي إظْهَارِ الْأَمْرِ عُرْفًا كَالْكُتُبِ الْمُعَنْوَنَةِ وَالْمَحَاضِرِ وَالسِّجِلَّاتِ وَالْقِصَصِ وَنَحْوِهَا ترجمہ :مرسوم سے مراد یہ ہے کہ جو عرف و عادت میں کوئی معاملہ ظاہر کے لیے وجہ معتادپر ہو جیسے باعنوان کتب، دستاویزات ، رجسٹرزاور قصے وغیرہ ۔( حاشية الشِّلْبِيِّ علی شرح تبيين الحقائق ،جلد6،صفحہ 218 المطبعة الكبرى الأميرية)۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب