سوال
میرے شوہردبئی میں ملازمت کر رہے ہیں ،میں شوہر کے گھر میں سب فیملی کے ساتھرہتی ہوں ،گھر میں جب بھی دعوت یا تقریب ہوتی ہے تو دیور اور جیٹھ وغیرہ سب سامنے ہوتے ہیں ان حالات میں مجھے ان سبسے شرعی پردہ کرنا چاہیے یا نہیں ؟۔نیز روزانہ کھانے کے اوقات میں سب ملکر کھانا کھاتے ہیں ،اس وجہ سے بھی پردہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے،اور بچوں کے لیے اسکول بھی جاناپڑتا ہے ۔برائے کرم شرعی طور پر میرے لیے کیا رعایت ہے ؟ سائلہ:نورین اختر
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دیور نامحرم ہے اس سے بھی پردہ فرض ہے،بلکہ دیگر اجنبیوں کے مقابلے میں اس کا حکم سخت ہے کہ حدیثِ رسولصلی اللہ علیہ وسلم میں دیور کو موت کہا گیا: عن عقبة بن عامر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إیاکم والدخول علی النساء فقال رجل من الأنصار یا رسول اللہ! أفرأیت الحَمو؟ قال: الحمو الموت ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(اجنبی)عورتوں کے پاس جانے سے اجتنابکرو ، ایک انصاری نے عرض کی یار سول اللہ : دیور کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس پر آپ علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا: دیور تو موت ہے۔(صحيح البخاري رقم الحڈیث 5232 )
ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا :لایخلون رجل بامراۃ الا کان ثالثہا الشیطان ۔ترجمہ:جب مرد عورت کے ساتھ خلوت میں ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(رواہ الترمذی عن عمر رضی اللہ عنہ ) خاص طور پر جن عورتوں کے شوہر انکےپاس نہ ہوں ،ایسی عورتوں کے پاس جانافتنے سے خالی نہیں ان سے بہر صورت گریز کیا جائے ۔جیسا کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے :لا تجلبوا علی المغیبات فان الشیطان یجری من احدکم مجری الدم ۔ترجمہ:جن عورتوں کے شوہر غائب (موجود نہ)ہوں انکے پا جانے سے بچوکہ بے شک شیطان تم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے ۔(سنن الترمذي:رقم الحدیث 1172 )
عورت کا تمام بدن ستر (پردہ )ہے سوائے ان پانچ اعضا کے :چہرا ،دو ہاتھ ،اور پاؤں کا ظاہری حصہ ۔ جیسا کہ علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :وللحرة جمیعُ بدنہا خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد ترجمہ: معتمد قول کے مطابق آزاد عورت کےلیے سارے بدن کا چھپانا فرض ہے ،سوائےچہرے ،ہتھیلیوں اور دونوں پاؤں کے۔(الدر المختار جلد1 صفحہ 405 مطبوعہ : دار الفكر-بيروت)
اوراجنبیوں کے سامنے عورت کا پردہ کرنےکا شرعی معنی یہ ہے کہ انکے سامنے ضرورتًا چہرا،ہاتھ اور پاؤں کھول سکتی ہے،جبکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔علامہعلاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہلکھتے ہیں:وتمنع المرأة الشابة من كشف الوجه بين رجال لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة ۔ ترجمہ:جوان عورت کو نامحرم کے سامنے چہرا کھولنے منع کیا جائے گا،اسلیے نہیں کہ یہ اسکاستر ہے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ باعثِ فتنہ ہے(الدر المختار جلد1 صفحہ 406مطبوعہ : دار الفكر-بيروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :اگر سامنے آنا بے ستری سے ہے کہ کپڑے باریک ہیں جن سے بدن چمکتا ہے یا سر کے بال یا گلے یا کلائیوں کا کوئی حصہ کھلا ہے تو سب کو حرام ہے۔ اور ستر کامل کے ساتھ ہو اور خلوت نہ ہو اور احتمالِ فتنہ نہ ہو تو حرج نہیں۔(فتاوی رضویہ جلد 22صفحہ 244 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اور اگر خوفیا فتنے کا اندیشہ ہو تو پھر چہرہ بھی چھپانا ضروری ہو گا جیسا کہ ہمارے فقہائے کرام بلکہ ام المؤمینن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسکی صراحت موجود ہے :ہی لا تجد بدامن ان تمشی فی الطریق فلا بد من ان تفتح عینہا لتبصر الطریق فیجوز لہا ان تکشف احدی عینہا لہذا الضرورۃ ترجمہ:خاتون کو اگر راستے میں چلنے کا کوئی حیلہ نہ ملے تو پھر اس طرح پردہ کرے کہ بس اسکی آنکھیں کھلی رہیں تاکہ راستہ دیکھ سکے ،پس اس کے لیے دونوںآنکھوں میں سے ایک کا کھولنابھی اس ضرورت کی وجہ سے جائز ہے۔(المبسوط للسرخسی کتاب الاستحسان جلد 10 صفحہ 12دار المعرفہ بیروت)
البحر الرائق میں ہے :’’قال مشایخنا تمنع المراۃ الشابۃ من کشف وجہہا بین الرجال فی زمانناللفتنہ وشمل کلامہ الشعر المترسل ‘‘ ترجمہ:ہمارے مشائخ نے فرمایا :جوان عورت کے لیے مردوں کے سامنے اپنا چہرہ کھولنافتنے کی وجہ سے منع ہے،اور یہ حکم لٹکے ہوئے بالوں کو بھی شامل ہے ۔(البحر الرائق کتاب الصلاۃ جلد 1 صفحہ 284 دار الکتاب الاسلامی)
الغرض:درج بالاعبارات بالخصوص اماماہلسنت کی عبارت کی روشنی میں صورتِ مستفسرہ کا جوابیہ ہے کہ :اگر شرعی پردے کے ساتھ ساتھ احتمالِ فتنہ نہ ہو تو گھر والوں کے ساتھکھانا کھانے میں حرج نہیں ورنہ ممنوع ہو گا ،یوں ہی باپردہہو کر بچوں کو اسکول وغیرہ چھوڑنے ،لانے کی اجازتہے کیوں کہ بادی النظر کہیں بھی اسکول گھر سے اتنے دور نہیں ہوتے کہ انکیمسافت حد ِمسافتِ شرعی(92 کلو میٹر) کو پہنچتی ہو۔واللہ اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــــه:محمد یونس انس القادری
الجـــــواب صحــــيـح:ابو الحسنينن مفتي وسيم اخترالمدني
تاريخ اجراء: 20ربیع الاول 1441 ھ/18نومبر 2019 ء