سوال
جناب میری والدہ جن کا انتقال مؤرخہ 2011-12-26 کو ہوا ۔میری والدہ نے اپنی زندگی میں اپنا مکان جسکا نمبر 402سیکٹر 15Aاورنگی ٹاؤن ہے مجھے ہبہ کردیا تھااور میری والدہ خود بڑے بھائی کے گھر رہائش پذیر تھیں۔اسی وجہ سے مجھ سے کسی بہن بھائی نے کوئی پیسے کا مطالبہ نہیں کیاکیونکہ سب اس بات سے واقف ہیں لیکن میرے چھوٹے بھائی محمد علی جس کا انتقال والدہ کے انتقال سے پہلے گولی لگنے کے سبب مؤرخہ 1998-7-17 کو ہوا تھااور ان کی زوجہ سوئم والے دن ہی بیٹی کو لے کر گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی،والدہ کے انتقال کے بعد وقتاًفوقتاًمطالبہ کر رہی ہے کہ میرے شوہر کا حصہ دیا جائے۔اور میری والدہ نے وفات سے قبل مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ جب بھی مرحوم محمد علی کی بیٹی کی شادی کا سلسلہ ہوگا تو تم اپنی طرف سے اسکی شادی کیلئے 50000 روپے دوں اور میں اس وعدے کو پورا کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن محمد علی کی زوجہ مجھے سے حصے کا مطالبہ کررہی ہے آپ بتائیں کہ اس صورت میں کیا کیا جائے؟ سائل:محمد ولی بن اسرافیل: کراچی۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مسؤلہ بالا صورت ِحال میں یہ گھر آپ کا ہے آپکی بھابھی (مرحوم محمد علی کی زوجہ)کا حصے کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ گھر آپ کی والدہ نے آپ کو ھبہ کیا تھا اورہبہ کے بعد قبضہ کرنے سےھبہ تام ہوگیا اور اگر ہبہ نہ بھی کیا ہوتا پھر بھی آپ کی بھابھی کا مطالبہ درست نہیں کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر وارث مؤرث سے پہلے انتقال کر جائے تو وہ وراثت کا حق دار نہیں ہوگا اور پچاس ہزار کی رقم والدہ سے کیے ہوئے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی خوشی سے دینا چاہیں تو یہ رقم آپ مرحوم محمد علی کی بیٹی کی شادی کے لئے دے سکتے ہیں اور یہ رقم دینا بطور احسان اور تبرع کے ہوگا۔
ہبہ کی تعریف کے حوالے سےعلامہ محمد بن فرامرز المعروف ملا خسرو علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:(تَمْلِيكُ عَيْنٍ بِلَا عِوَضٍ) أَيْ بِلَا شَرْطِ عِوَضٍ لَا أَنَّ عَدَمَ الْعِوَضِ شَرْطٌ فِيهِ۔ترجمۃ: کسی چیز کا( دوسرے کو )بلا عوض ( بغیر عوض کی شرط کے )مالک کردینا ہبہ کہلاتا ہے ،یعنی اسمیں عوض کا ہونا شرط و ضروری نہیں ۔ (درر الحكام شرح غرر الأحكام جلد 2 صفحہ 217 دار إحياء الكتب العربية)
اسی طرح ھبہ پر قبضہ کرتے ہی ھبہ تام ہوجاتا ہے: تتم الھبۃ بالقبض الکامل۔ترجمہ:مکمل قبضہ کے بعد ھبہ تام ہوتاہے ۔( تنویر الابصار مع الدر المختار کتاب الھبہ جلد 5 ص 692)
اور وارث مؤرث کی وفات سےپہلے انتقال کرجائے تو وہ وراثت کا حقدار نہ ہوگا چناچہ الہدایۃ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے:ويقسم ماله بين ورثته الموجودين في ذلك الوقت ومن مات قبل ذلك لم يرث منهترجمہ: اور میت کا مال اس کے ان ورثاء میں تقسیم ہوگا جو اسکی موت کے وقت موجود (زندہ) تھے اور جو ا س کی موت سے پہلے مرگئے وہ اس کے وارث نہیں ہونگے (لہذا ان میں وراثت تقسیم نہیں ہوگی)۔( الہدایۃ شرح بدایۃ المبتدی کتاب المفقود جلد 2ص 424)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ: محمد احمد امین قادری نوری
الجواب الصحیح:ابوالحسنین مفتی وسیم اختر المدنی
تاریخ اجراء: 29 ذو الحجۃ 1441 ھ/20 اگست 2020 ء