سوال
ایک شخص کا اپنا ذاتی مکان تھا اس نے وہ مکان اپنی دو بیویوں کے نام کیا ۔ اور دونوں کو قبضہ دے دیا ،مکان گراؤنڈ پلس ون فلور ہے۔ اب وہ مکان 70 لاکھ کا بک رہا ہے ۔ پہلی بیوی کی دو بیٹیاں ہیں جبکہ دوسری بیوی کی 4 بیٹیاں اور دو بیٹے۔ یہ سب اولاد مکان کی قیمت کی تقسیم کا تقاضا کررہی ہیں۔ اس صورت حال میں درج ذیل سوالات ہیں :
1: مکان کی قیمت کی تقسیم واجب ہے؟
2: اگر ہاں تو ہر ایک کا کیا حصہ ہوگا؟
3: اگر مکان کی رقم تقسیم کئے بغیر انتقال ہوجاتا ہے تو ان بیویوں پر گناہ تو نہیں ہوگا؟
نوٹ: شوہر نے مکان تقسیم کیے بغیر ہی بیویوں کو قبضہ دے دیا تھا اور شوہر کا انتقال ہوگیا ہے ۔ سائل:رفیعہ وخدیجہ : کراچی۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورت ِ مستفسرہ میں یہ مکان والدہ اور بچوں دونوں کا مشترکہ ہے ۔اور فروخت کرنے اوردیگر اخراجات کی ادائیگی کے بعد بقیہ رقم کے والدہ اور تمام بچے برابر کے حقدار ہونگے۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ بغیر عوض کسی کو اپنی چیز کا مالک بنانا ہبہ کہلاتا ہے۔ہبہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ہبہ کرنے والا موہوب بہ (جو چیز ہبہ کی جارہی ہے)کو موہوب لہ(جسے ہبہ کیا جارہا ہے) کے قبضے میں دے دے ۔اور پوچھی گئی صورت میں موہوب بہ پروالدہ اور بچوں کا قبضہ ہوگیا ۔والدہ اور بالغ اولاد کا قبضہ تو واضح ہے کہ والد نے گھر چھوڑ کر مکان انکے حوالے کردیا اور نابالغ کا قبضہ والد کے ہبہ کرنے سے ہی ہوگیا کیونکہ والد نابالغ اولاد کا ولی ہوتا ہے اور جب ہبہ نابالغ کو کیا جائے تو ہبہ تام ہونے کے لیے صرف ولی کا ایجاب ہی کافی ہوتا ہے کہ ولی قبضہ کرنے میںنابالغ کا نائب ہے ۔اور ہبہ کی جانے والی چیز ایسی مشاع تھی کہ اگر اسکی تقسیم کی جاتی تو وہ قابل انتفاع نہ رہتی ۔لہذا یہ ہبہ تام ہوا اور ہبہ تام ہونے کے بعد مالکان جیسے چاہیں اس پر تصرف کرسکتےہیں۔اور مکان بیچنے کے بعد برابرآپس میں تقسیم کرلی ہبہ کی تعریف کے حوالے سے علامہ محمد بن فرامرز المعروف ملا خسروعلیہ الرحمہ لکھتے ہیں:(تَمْلِيكُ عَيْنٍ بِلَا عِوَضٍ) أَيْ بِلَا شَرْطِ عِوَضٍ لَا أَنَّ عَدَمَ الْعِوَضِ شَرْطٌ فِيهِ۔ترجمۃ: کسی چیز کا( دوسرے کو )بلا عوض ( بغیر عوض کی شرط کے )مالک کردینا ہبہ کہلاتا ہے ،یعنی اسمیں عوض کا ہونا شرط و ضروری نہیں ۔ (درر الحكام شرح غرر الأحكام جلد 2 صفحہ 217 دار إحياء الكتب)
اسی طرح ھبہ پر قبضہ کرتے ہی ھبہ تام ہوجاتا ہے: تتم الھبۃ بالقبض الکامل۔ترجمہ:مکمل قبضہ کے بعد ھبہ تام ہوتاہے ۔( تنویر الابصار مع الدر المختار کتاب الھبہ جلد 5 ص 692)
تنویرالابصار مع الدر المختار میں ہے :ھبۃ من لہ ولایۃ علی الطفل فی الجملۃ تتم بالعقد (ای الایجاب فقط) لان قبض الولی ینوب عنہ والاصل ان کل عقد یتولاہ الواحد یکتفی فیہ بالایجاب ۔ترجمہ: جس کو نابالغ پر ولایت حاصل ہے تو اس کا بچے کو ہبہ، محض عقد سے ہی تام ہوجاتا ہے یعنی صرف ایجاب ہی کافی ہے کیونکہ ولی کا قبضہ بچے کی نیابت سے ہے۔ اورقاعدہ یہ ہے کہ ایسا عقد جس میں ایک شخص ہی فریقین کے قائم ہوسکتاہے اس میں اس کا ایجاب ہی کافی ہے۔(تنویرالابصار مع الدر المختار کتاب الھبۃ جلد 6ص 694 الشاملہ)
سیدی اعلیٰ حضرت ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: اگر اس نے اپنا حصہ جدا جدا تقسیم کراکر ہبہ کیا اور بھانجی کو قبضہ دے دیا یا ہبہ کے بعد تقسیم کرکے حصہ منقسمہ پر قبضہ دے دیا یا وہ مشترک جائداد قابل تقسیم نہ تھی اگر دو حصے کئے جاتے تو ہر حصہ قابل انتفاع نہ رہتا، جیسے کوئی کوٹھری یا چھوٹی دکان تو ان صورتوں میں بعد قبضہ دختر ہبہ تمام ہوگیا۔(فتاوٰی رضویہ ،جلد:19،ص:354،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :پسر موہوب لہ اگر وقت ہبہ بالغ ہو تو خود اس کا اپنا قبضہ شرط ہے ورنہ باپ کا قبضہ اسی کا قبضہ ہے ،کل ذٰلک مصرح بہ فی الکتب الفقہیۃ عن اٰخرہا (یہ تمام بحث کتب فقہ میں تصریح شدہ ہے۔ )(فتاوٰ ی رضویہ کتاب الھبۃ جلد 19 ص 219)
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :قبضہ پدر بعینہٖ قبضہ پسر نابالغ ہے، مجمع الانہر میں ہے : ھبۃ الاب لطفلہ تتم بالعقد لانہ فی قبض الاب فینوب عن قبض الصغیر لانہ ولیہ ۔نابالغ بچے کے لئے باپ کا ھبہ صرف عقد سے ہی تام ہوجا تاہے ؛کیونکہ وہ ھبہ باپ کے قبضہ میں بیٹے کے نائب ہونے کی حیثیت سے ہےکیونکہ یہ اس کا ولی ہے۔(فتاوٰ ی رضویہ کتاب الھبۃ جلد 19 ص 194)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــہ:محمد احمد امین قادری نوری
الجـــــواب صحــــیـح:ابو الحسنین مفتی وسیم اختر المدنی
تاریخ اجراء: 10ربیع الثانی1443 ھ/16نومبر2021 ء