گھر گفٹ کیا گیا اور اس پر قبضہ بھی کر لیا
    تاریخ: 17 نومبر، 2025
    مشاہدات: 4
    حوالہ: 144

    سوال

    ہم لوگ پانچ بہن بھائی ہیں۔ دو بھائی اور تین بہنیں۔میری تینوں بہنوں کی شادی ہوگئی ہے۔میرے بڑے بھائی کی بیوی یورپین ہے ۔ ان کی شادی کو 43 سال ہوگئے ہیں ۔ اور کوئی اولاد نہیں ہے۔اور میری دو بیٹیاں ہیں اور میری شادی کو 30 سالہوگئے ہیں۔میری شادی کے وقت میری عمر 25 سال تھی اور میرے والدین میرے ساتھ رہتے تھے۔ اور اسی وقت میری بہن اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے 4 بچوں کے ہمراہ ہمارے گھر آگئی تھی ۔اس تمام کنبے کی ذمہ داری میرے اوپر تھی جو کہ اللہ کے فضل سے میں نے 30 سال نبھائی۔ میرے بڑے بھائی نے تمام مالی ذمہ داری اٹھائی چونکہ ان کی نوکری ہمیشہ باہر رہی جوکہ تقریباً 40 سال تھی ۔

    میری نوکری سعودی عرب میں ہو رہی تھی ۔ میرے بھائی نے کہا کہ تم پاکستان میں رہو اور تمام ذمہ داریاں نبھاؤ اور تمھارے روزگار کے معاملات میری ذمہ داری ہوگی۔ہم لوگوں کی رہائش نارتھ ناظم آباد میں تھی اور گھر بڑے بھائی کے نام تھا اور انھوں نے یہ گھر بینک سے جو لان ملا تھا اس سے خریدا تھا ۔یہ گھر فروخت کرکے ہم لوگ D-H-A شفت ہوگئے۔اور کرائے پر رہائش اختیار کرلی۔اس دوران میرے اور بہنوں میں لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے اور جھگڑوں کی وجہ میں اورمیری فیملی بن گئے۔

    اس دوران ڈیفنس میں گھر خریدنے کا معاملہ شروع ہوا تو میں نے بھائی سے کہا کہ یہ گھر میرے نام پر خریدیں کیونکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے میں اور میری فیملی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے تھے۔اور بھائی مان گئے اور گھر میرے نام پر خرید لیا گیا ۔لیکن والدین کے انتقال کے بعد جھگڑے پھر سے شروع ہوگئے اور پھر میں نے تمام بہن بھائیوں کی موجودگی میں کہا کہ میں اور میری فیملی یہ گھر چھوڑ دیں گے۔دو دن بعد بھائی gift deed بناکردی کہ انھوں نے گھر مجھے گفٹ کردیا اور میں اس کا مالک ہوں ۔اور جس وقت بھائی نے یہ گھر مجھے گفٹ کیا وہ باہر ملک ہی رہائش پذیر تھے۔اور کچھ سامان گھر میں موجود تھا جو بھائی نے گھر خرچ کے لیے پیسے دیےتھے ان سے خریدا گیا تھا۔اس بیان کے بعد درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

    1:کیا میں اس گھر کا شرعی مالک ہوں؟

    2:کیا شرعی طور پر میں یہ گھر بیچنے کا حق رکھتا ہوں؟

    نوٹ: سوال کے ساتھ gift deedمنسلک ہے جس میں واضح لکھا ہوا ہے کہ بھائی تاج الدین نے اپنا گھر غیاث الدین کو ہبہ کر دیا ہے۔اور مستقبل میں کوئی بھی بہن اس گھر میں اپنے حصے کا تقاضہ نہیں کر سکتی ۔ سائل:غیاث الدین :کراچی


    بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

    اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

    صورتِ مستفسرہ میں اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ بیان کیا گیا توحکم شرعی یہ ہے کہ غیاث الدین اس ہبہ شدہ گھر کے مالک ہیں۔اور وہ جیسا چاہیں اس پر تصرف کرسکتے ہیں۔

    مسئلے کی تفصیل یہ ہےکہ دوسرے کو اپنی چیز کا بغیر عوض مالک بنانا ہبہ ( یعنی گفٹ ) کہلاتا ہے۔اور ہبہ کے تام ہونے کےلیے یہ شرط ہے کہ واہب مرنے سے پہلے ہبہ کی ہوئی چیز موہوب لہ(جسے ہبہ دیا گیا )کے قبضہ میں دے دے اور قبضہ تام اس وقت ہوگا جب وہ چیز واہب کی ملک میں مشغول نہ ہو۔اور مذکورہ صورت میں بھی جو گھر تاج االدین نے غیاث الدین کو گفٹ کیا ۔اس پر قبضہ بھی دے دیا اور وہ گھر تاج الدین کی ملک میں مشغول بھی نہیں تھا۔

    ہبہ کے لیے مکمل قبضہ ضروری ہے ۔ چنانچہ در مختار میں ہے : و تتم الھبۃ بالقبض الکامل ترجمہ : ہبہ قبضۂِ کاملہ کے ساتھ پورا ہوتا ہے ۔

    اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں فرماتے ہیں : يشترط القبض قبل الموت ترجمہ : ( ہبہ کرنے والے کی ) موت سے پہلے قبضہ کرنا شرط ہے ۔ (رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الھبۃ ، جلد 8 ، صفحہ 573 ، دار المعرفۃ بیروت)

    ہبہ کی شرائط سے متعلق در مختار میں ہے : و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغولترجمہ : ہبہ کی جانے والی چیز میں ہبہ درست ہونے کی یہ شرائط ہیں کہ وہ چیز قبضہ میں ہو ، مشاع ( مشترک ) نہ ہو ، جدا ہو اور ( کسی اور کے قبضہ کے ساتھ ) مشغول نہ ہو ۔ (رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الھبۃ ، جلد 8 ، صفحہ 569 ، دار المعرفۃ بیروت )

    واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

    کتبـــــــــــــــــــــــــــہ:محمد احمد امین قادری نوری

    الجـــــواب صحــــیـح: ابو الحسنین مفتی وسیم اختر المدنی

    تاریخ اجراء: 10رمضان المبارک1443 ھ/12اپریل2022 ء