جینیٹک اسکریننگ کا شرعی حکم
    تاریخ: 17 نومبر، 2025
    مشاہدات: 2
    حوالہ: 139

    سوال

    میں اور میری بیوی دونوں چچا زاد ہیں ۔ہمارا پہلا بیٹا 5 سا ل کا ہے ،لیکن ذہنی طور پر کمزور ہے ۔بول اور سمجھ نہیں سکتا۔اور اللہ پاک نے ہمیں 4 سال بعد دوسرا بیٹا عطا کیا۔جس کی ولادت حمل کے 8 ماہ میں ہوئی اور اسکا دو دن بعد انتقال ہوگیا ۔ڈاکٹر کی رائے ہے کہ ہم کیونکہ کزن ہیں تو ہمیں جنٹک اسکریننگ ٹیسٹ کروانا چاہئے ۔کیا شرعی لحاظ سے یہ ٹیسٹ کروانا درست ہے۔ہم ذاتی طور پر بہت پریشان ہیں اپنی آنے والی اولاد کو لے کر ۔برائے کرم شرعی رہنمائی فرمائیں؟

    سائل :مزمل اشرف:کراچی


    بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

    اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

    جینیٹک بنا ہے جین سے اور جین کروموسومز میں تسبیح کے دانوں کی مثل قطار میں پڑی ننھی منی مخلوق کا نام ہے جو خصوصیات کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں،جن کو موروثی اکائی بھی کہا جاتا ہے ،ساخت کے اعتبار سے جین ایک خاص قسم کے اس مالکیول(سالمہ) کا حصہ ہوتے ہیں جسے D.N.Aکہا جاتا ہے۔ایک خلیے میں D.N.Aکے اربوں یونٹ ہوتے ہیں ۔یہ جین والدین کا کوئی خاصہ یا کئی خصوصیات مثلاًآنکھ کا رنگ ،جسم کا قد وغیرہ اولاد کو منتقل کرتی ہے۔

    کروموسوم مرد کے نطفےمیں 23 اور عورت کے بیضۂتولید میں23 ہوتے ہیں اور جب ان کے ملاپ سے حمل کا استقرار ہوتا ہے تو اس میں یہ سارے کروموسوم منتقل ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوجاتے ہیں اور اب ان کی تعداد چھیالیس ہوتی ہے جن میں سے 23 مرد کے نطفے سے آتے ہیں اور 23 عورت کے بیضۂ تولید سے آتےہیں۔

    پھر ہر جین کی دو کاپی ہوتی ہے ،ایک اچھی اور صحیح ہوتی ہےاور دوسری خراب ہوتی ہے ،جس کے اندر بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ،اچھی کاپی خراب کاپی پر ہمیشہ غالب رہتی ہے ۔ماں اور باپ دونوں کے ذریعہ جین برابر بچوں میں جاتا ہے ،خراب اور اچھے جین ماں اور باپ دونوں میں ہوتے ہیں۔اب اگر ماں اور باپ میں سے کسی کے کروموسوم میں بہتر جین ہوں تو وہ خراب جین پر غالب ہوتے ہیں اور بچہ اچھا ہوتا ہے،اور اگر بچے میں دونوں کے خراب جین آئے تو بچہ بیمار یا کمزور ہوجاتاہے اور یہ بیماری اپاہج پن ،کمزوری ،خون کی خرابی ،دل ،گردے ،پھیپھڑےکے خراب ہونے ،بانجھ پن ،نامرد وغیرہ جیسی کسی بھی صورت میں ہوسکتی ہے۔اور انہی کروموسوم کے 23 زنجیروں میں پروئے ہوئے کروڑوں جین کی چیک اپ یا جانچ کا نام جینیٹک ٹیسٹ ہے۔اس ٹیسٹ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہوتا ہےکہ ماں باپ کے کروموسوم میں موجود ایسے جین تو نہیں کہ جن کے ملنے سے بچہ بیمار ،اپاہج یا نامکمل پیدا ہوگا ۔اگر خراب جین ہیں تو انہیں تبدیل کیا جاسکے اور آج کی جدید تحقیق کے مطابق یہ ممکن ہےکہ خراب جین کی جگہ صحیح اور اچھے جین لے آئیں تاکہ میاں بیوی کے ملنے سے جو بچہ وجود میں آئے گا وہ کسی بھی کمی یا بیماری کا شکار نہ ہو ۔

    جینیٹک ٹیسٹ کا شرعی حکم یہ ہے کہ عمومی حالت میں یہ ٹیسٹ جائز نہیں کہ اس میں کئی مفاسد ہیں:

    1:اس ٹیسٹ میں مسلم عورت کی ستر کو ایک اجنبی ڈاکٹر دیکھتا ،چھوتا ہے اور یہ بلاضرورت شرعیہ حرام ہے۔

    2:اس ٹیسٹ کے اور طریقے بھی ہیں جو مفاسد سے خالی نہیں ۔

    3:اس کی ٹیسٹ کی عمومی طور پر نہ ضرورت و حاجت ہے اور نہ ہی منفعت و زینت بلکہ یہ فضول کی قبیل سے ہے۔کیوں کہ اس ٹیسٹ سے مرد یا عورت کے صرف جین کی خرابی کا پتہ چلتا ہے ۔اس سے پیدا ہونے والے بچہ پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا تعین نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر ایسی صورتِ حال ہو کہ جس میں اس بات کا تجربہ ہو چکا ہو کہ ان میاں بیوی کے ملنے سے بچے ناقص بیمار اور معذور پیدا ہورہے ہیں جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا تو ایسی صورت ِحال میں ضرورت کی وجہ سے اس ٹیسٹ کی اجازت ہے تاکہ میاں بیوی میں موجود خراب جین کی معلومات حاصل کرکے انہیں تبدیل کروا کر آئندہ معذور یا ناقص بچے کی پیدائش کے ضرر سے بچا جاسکے ۔

    حدیث مبارک میں ہے : عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَضَى أَنْ لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ترجمہ:سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ نے مروی ہے ،نبی کریمﷺ نے حکم دیا:نہ نقصان اٹھاؤ اور نہ نقصان پہنچاؤ۔ (سنن ابن ماجہ:2340)ا

    اسی طرح فقہ کا اصول ہے:الضرر یزال:نقصان کو دور کیا جاتا ہے۔(الاشباہ والنظائرلابن نجیم،صفحہ:72،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

    اور ضرورت ممنوع کام کوبھی جائز کردیتی ہے جیسا کہ فقہ کا اصول ہے :الضرورات تبیح المحظورت ترجمہ:ضرورت ممنوعات کو مباح کردیتی ہے۔(الاشباہ والنظائرلابن نجیم،صفحہ:73،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جینیٹک ٹیسٹ عام حالت میں جائز نہیں البتہ پوچھی گئی صورت میں ضرورت کی وجہ سے اسکی اجازت ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ ایسے ٹیسٹ نہ کروائے جائیں کہ جس میں ممنوعات کا ارتکاب کیا جائے اوربندہِ مومن کو اللہ رب العزت کی ذات پرکامل بھروسہ رکھتے ہوئے ہر ایسی منفعت کو ترک کردینا چاہیے جس کے حصول کے طریقے کو اختیار کرنے سے اللہ رب العزت کی نافرمانی کامرتکب ہونا پڑےاورجو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر اسکی نافرمانی سے بچتا ہےتو وہ کریم ذات اسکے سارے بگڑے کام بنا دیتی ہے۔

    واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

    کتبــــــــــــــــــہ:محمد احمد امین قادری نوری

    الجواب الصحیح : ابو الحسنین مفتی وسیم اختر المدنی

    تاریخ اجراء: 24رمضان المبارک 1442 ھ/07مئی 2021 ء