سوال
میں پاکستان میمن جماعت سے تعلق رکھتا ہوں ۔ہماری جماعت کے پاس تین سے چار قبرستان ہیں۔۔میں میوہ شاہ قبرستان کی بات کر رہا ہوں ۔میرے والد کا (16نومبر 2021)کو انتقال ہوا ہے۔ہم نے جماعت کو کال کی کہ ہمیں قبر کے لیے جگہ چاہیے انھوں نے ہمیں جگہ دے دی ۔ہم نے والد صاحب کی تدفین کر دی ۔پھر کچھ دنوں بعد ہمیں پتہ چلا کہ یہ جگہ وقف کی ہے اور ہم لوگ اس جگہ کو پانچ سات بعد شہید کر کے دوسرے مردے کی تدفین کریں گے ،مگر ہم لوگ منع کر رہے ہیں۔کیا جماعت والوں کو ایسا کرنا کیا شریعت کی روشنی میں جائز ہے ۔جبکہ دوسرے قبرستان میں جگہ خالی ہے۔
سائل:محمد یوسف ،کراچی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورت مستفسرہ میں جب جماعت کے پاس اور بھی قبرستان موجود ہیں جن میں جگہ خالی ہے ،تو ان دو (قبرستانوں) کے ہوتے ہوئے ان کا یہ اقدام کرنا جائز نہیں ہے۔بلکہ اگر قبرستان کے لیے الگ سے کوئی زمین خریدنا ممکن ہو تواس صورت میں بھی اس عمل (قبر کھود کر مردہ دفنانے )کی گنجائش نہیں ۔
یاد رہے کہ بغیر کسی امر مجبوری کے کسی مسلمان کی قبر کشائی کرنا جائز نہیں ۔اور پھر اس کے اجزا کو متفرق کرنا حرمتِ مومن کے خلاف ہے ،اس بے حرمتی کی گنجائش ہے نہ اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔مزید یہ کہ اس میں ورثا کی دل آزاری بھی ہے ۔فقہائے کرام نے جو بعض صورتوں میں اجازت دی ہے وہ انتہائی ضرورت اور مجبوری کی صورتیں ہیں ۔اورفقہائےکرام کے ہاں ضرورت وہ نہیں ہوتی جسے عوام اپنی دانست میں سمجھنےلگیں بلکہ وہ ہے جسے مفتیان کرام دائرہ رخصت میں سمجھیں ۔اورہم سمجھتے ہیں کہ یہاں پر وہضرورت متحقق نہیں جس کی بنا پر اجازت کا پہلو نکلتا ہے۔
علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ ،اس عمل کی بابتامام ابن امیر الحاج رحمہ اﷲ سے تفصیلی کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : یکرہ ان یدفن فی القبر الواحد اثنان الالضرورۃ وبھذا تعرف کراھۃ الدفن فی الفساقی، خصوصا ان کان فیھا میّت لم یبل، واما ما یفعلہ جھلتہ اغبیاء من الحفارین وغیر فی المقابر المسبلۃ العامۃ وغیرھا من بنش القبور التی لم یبل اربابھا وادخال اجانب علیھم، فھو من المنکر الظاھر الذی ینبغی لکل واقف علیہ انکار ذلک علی متعاطیہ بحسب الاستطاعۃ فان کف والا دفع الٰی اولیاء الامور وفقھم اﷲ تعالٰی لیقا بلوہ بالتادیب، ومن المعلوم ان لیس من الضرورۃ المبیحۃ جمع میّتین ابتداء فی قبر واحد لقصد دفن الرجل مع قریبہ او ضیق محل الدفن فی تلک المقبرۃ مع وجود وغیرہا وان کانت تلک المقبرۃ مما یتبرک بالدفن فیھا البعض من بھا من الموتٰی فضلا عن کون ھذہ الامور و ما جری مجرھا مبیحۃ للنبش وادخال البعض علی البعض قبل البلی مع مایحصل فی ضمن ذلک من ھتک حرمۃ المیّت الاول وتفریق اجزائہ فالحذر من ذلک ۔ترجمہ:بلا ضرورت ایک قبر میں دو میتوں کو دفن کرنا مکروہہے، اور اسی سے تَہ خانوں میں دفن کرنے کی کراہتجانی جا سکتی ہے، خصوصاً جبکہ وہاں کوئی میّت موجود ہو جو ابھی تک خاک نہ ہوئی ہو او ر وہ جو بعض گورکن جاہل بد عقل کرتے ہیں کہ وقفی یا غیروقفی قبرستان میں وہ قبر جس کا مردہ ہنوز خاک نہ ہو، کھود کر دوسرا دفن کردیتے ہیں، یہ صریح معصیت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ حتی الامکان انھیں ایسا کرنے سے خود روکے، او راس کے روکے نہ رُکیں تو حکام کو اطلاع دیں کہ وہ ان لوگوں کو سزا دیں، اور شریعت سے معلوم ہے کہ کسی کو اس کے عزیزیا تبرک کے لئے کسی مزار کےپاس دفن کرنے کی غرض سے ابتداء دو جنازے ایک قبر میں رکھنا حلال نہیں جبکہ وہاں دوسرا مقبرہ موجود ہو، نہ کہ ان وجوہ کے لیے اگلی قبر کھود نا، او ر ایک کے خاک ہونے سے پہلے دوسرے کا اس میں داخل کرنا، یہ کیسے حلال ہوسکتا ہے حالانکہ اس میں پہلے میّت کی ہتکِ حرمت اور اس کے اجزاء کا متفرق کرنا ہے تو خبردار اس حرکت سے بچو۔( رد المحتار بحوالہ حلیہ ملخصاً باب صلٰوۃ الجنائزجلد 01، صفحہ 598 ، ادارۃ الطباعۃ المصریۃ)
امام اہلسنت اماماحمد رضا خان علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: میّت اگر چہ خاک ہوگیا ہو بلاضرورت شدید اس کی قبر کھود کر دوسرے کا دفن کرنا جائز نہیں جیسا کہ تارتاخانیہ وغیرہا میں فرمایا، مگر کسی کی مملوک زمین ہے خاک ہوجانے کے بعد وہ اپنی ملک میں تصرف کرسکتا ہے، عبارتِ تبیین کا یہی محل ہے، بہر حال خاک ہوجانے سے پہلے بلا مجبوری کسی کے نزدیک جائز نہیں۔(فتاوٰی رضویہ ،کتاب الجنائز،جلد 9 ص 390،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ:محمد یونس انس القادری
الجـــــواب صحــــیـح:ابو الحسنین مفتی وسیم اختر المدنی
تاریخ اجراء:05جمادی الاوّل1443 ھ/10دسمبر2021ء