ایک میت کمیٹی کا حکم
    تاریخ: 8 دسمبر، 2025
    مشاہدات: 4
    حوالہ: 367

    سوال

    میت کمیٹی میں شرکت کا شرعی حکم کیا ہے؟اس کمیٹی میں جمع شدہ رقم کو آگے سرمایہ یا کاروبار میں نہیں لگاتے ۔ان کا کہنا ہے یہ سب نفلی صدقہ ہے جو باہمی امداد کے لیے ہے ،البتہ سالانہ قسط نہ دینے پر خارج کیا جا سکتا ہے اور جمع شدہ رقم واپس نہیں کی جاتی۔ان کا کہنا ہے کہ سالانہ قسط کم ہونے کی وجہ سے عموما اموات پر خرچہ زیادہ ہوتا ہے بنسبت اس ممبر کی کل جمع شدہ رقم کے۔ تو کیا یہ صدقہ ہے یا وقف و تکافل کی صورت ہے؟ ۔اس میں، جوئے میں اور انشورنس میں کیا فرق ہے ؟اس جمع شدہ رقم پر زکاۃ و میراث کے احکام جاری ہوں گے کہ نہیں ؟جواب عنایت فرمائیں!

    سائل: عبد اللہ

    بمعرفت مفتی منور عتیق صاحب

    بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

    اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

    صورت مستفسرہ میں اسے صدقہ مثلِ ہبہ قرار دینا تو کسی طور درست نہیں۔

    اولاً :

    اس میں عوضِ مال و منفعت(تجہیز و تکفین اور سروسز)موجود ہے جو کہ منافی صدقہ و ہبہ ہے کہ تکون الھبة خالیة عن العوض۔

    ثانیا:

    واہب و موہوب لہ کی مرضی کے خلاف کمیٹی اپنی مرضی سے موہوب بہ کو روک رہی ہے جو کہ جائز نہیں۔۔

    ثالثا:قبضہ کا بھی تحقق نہیں اور قبضہ کے بغیر تو ہبہ تام ہی نہیں ہوتا۔۔اور اگر بالفرض قبضہ مان لیا جائے تو رجوع عن الھبہ والا معاملہ پھر بھی رہے گا جسے حدیث میں اس کتے سے تشبیہ دی گئی ہے جو قے کے بعد اپنی ہی قے میں منہ مارے ۔لہذا یہاں پر اس کو صدقہ و ہبہ ٹھہرانا کسی بھی طرح درست نہیں۔

    وقف پر تکییف:

    البتہ اگر اس کی تکییف وقف پر کی جائے تو اس میں قدرِآسانی ہے جو کہ ظاہر ہے لیکن اس شرط (اس سے استفادہ وہی کر سکتا ہے جو ڈونیٹ کرے گا)کی وجہ سے تابیدِ وقف (یہاں پر اس سے مراد جہت آخر الی الفقراء ہے )مفقود ہو رہی ہے کہ موقوف علیھم سب ڈونرز ہیں جو کہ عموما فقراء نہیں ہوتے اسی لیے فقہاء نے لکھا کہ: لو وقف علی الاغنیاءوحدھم لم یجز لانہ لیس بقربۃ۔ترجمہ: اگر صرف اغنیاء پر وقف کیا تو یہ وقف صحیح نہیں ہو گا کیوں یہ (حقیقی)قربت نہیں۔(رد المحتار کتاب الوقف، جلد: 06 ،صفحہ 519 ،امدادیہ ملتان)

    اگر وقف کی اس شرط (جہت آخر الی الفقراء)کو پورا کر دیا جائے تو پھر یہ وقف صحیح و درست ہو جائے گا۔اور جب واقفین کی جانب سے وقف صحیح و لازم ہو جائے تو موقوفہ چیز ان کی ملکیت سے نکل جاتی ہے۔لہذا میراث اس مال میں جاری نہیں ہو گی نہ ہی اس پر زکاة ہو گی کہ ان دونوں چیزوں (میراث و زکاة) کا تعلق مملوکہ چیزوں سے ہیں۔

    اشتباہ :

    یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ وقف کی شرط تابید کی تعبیر میں آپ نے کہا کہ جہت آخر میں فقرا ہوں تاکہ موقوف علیھم کے اعتبار سے تابید پائی جائے ۔۔جبکہ تابید کا تعلق تو موقوف بہ کے ساتھ بھیہے بلکہ موقوف علیھم کی نسبت زیادہ مؤثر ہے۔لہذاتابید اپنی دونوں قسموں کے ساتھ معتبر ہو گی ۔

    یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے بعض منقولی چیزوں کے وقف کے بطلان کی جہاں بحث کی وہاں پر بطور دلیل اس بات کو پیش کیا ہے کہ انمیں تابید مفقود ہو رہی ہے اس لیے کہ استہلاک پایا جا رہا ہے جو کہ تابیدکے منافی ہے۔ جیسے سونا،چاندیاور صرف پانی کا وقف کرنا۔

    علامہ سید ابن عابدین شامی کی جانب سے ازالہ اشتباہ:

    اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو سید ی علامہ ابن عابدین الشامی نور اللہ مرقدہ الشریف نے ارشادفرمایا جو کہ دو قضیوںپر مشتمل ہے:پہلا قضیہ یہ ہے کہ دراہم روپے پیسے متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتے ۔

    دوسرا قضیہ یہ ہے کہ دراہم،روپوں پیسوں کو باقی رکھتے ہوئے ان سے نفع نہیں حاصل کیاجا سکتا لیکن ایساممکن ہے کہ ان روپوں پیسوں کے بدل (یہ بدل مضاربت و مشارکت سے حاصل شدہ نفع بھی ہو سکتا ہے اور آئے روز آنے والی ڈونیشن بھی ہو سکتی ہے )کو ان دراہم کےقائم مقام کر دیا جائے۔

    ماحصل یہ نکلاکہ جب روپے پیسے متعین نہیں ہوئےکہ خاص یہی وقف ہیں مزید یہ کہ بدل کی سہولت بھی موجود ہے تو ایسے میں معنوی اعتبار سے دیکھا جائے تو استہلاک نہیں بلکہ وقفاپنی جگہ پر باقی ہے ۔۔

    علامہ شامی علیہ الرحمہ کی عبارت ملاحظہ ہو:قلت إن الدراهم لا تتعين بالتعيين، فهي وإن كانت لا ينتفع بها مع بقاء عينها لكن بدلها قائم مقامها لعدم تعينها، فكأنها باقية۔(رد المحتار کتاب الوقف، جلد: 06 ،صفحہ 555 ،امدادیہ ملتان)

    ازالہ اشتباہ میں نظر :

    پہلا قضیہ درست نہیں کہ دراھم متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتے ۔عقودِ معاوضہ میں متعین نہیں ہوتے لیکن غیر معاوضہ جیسے ہبہ ،میراث ،صدقہ وغیرہ میں تو متعین ہوتے ہیں جیسے فتحالقدیر میں ہے : (لَا تَتَعَيَّنُ فِي الْعُقُودِ) أَيْ عُقُودِ الْبِيَاعَاتِ، بِخِلَافِ مَا سِوَاهَا مِنْ الشَّرِكَةِ الْوَدِيعَةِ وَالْغَصْبِ۔(فتح القدير جلد 6 صفحہ 474 دار الفكر)

    سو یہ مسئلہ بناء المسئلۃ علی الغلط کے قبیل سے ہے۔ امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے اپنے حاشیہ جد الممتار میں علامہ شامی کی اس توجیہ پر نقض وارد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:قال قبلہ فی البیع الفاسد الدراھم والدنانیر : تتعین فی الامانات والھبۃ والصدقۃ والشرکۃ والمضاربۃ والغصب۔(جد الممتار علی رد المحتار جلد 06 صفحہ 61دار الفقیہ )

    اصل اشتباہ کا جواب:

    جب ہم نے امام محمد علیہ الرحمہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے روپوں پیسوں کے وقف کو جائز قرار دے دیا اور یہ بھی واضح ہے کہ اس کے وقف میں عین کا استہلاک بھی پایاجا رہا ہے جس سے تابید کی قسم ثانی (یعنی موقوف بہ کا باقی رہنا )مفقود ہو گی ۔تو اس عرفوتعامل کی بنیاد پر اس شرط(جو کہ اجتہادی ہے )کی قسم ثانی میں استثنا کی صورت میں تخصیص آئےگی ۔

    یہ جواب اس صورت میں تھا کہ جب عین کا استہلاک معنی ًبھی ہو ۔جبکہ مروجہ وقف ماڈل تکافلمیں معنی یا حکماً استہلاکنہیں پایا جاتا اس لیے کہ وقف پول میں ابتداء جو رقم وقف کی جاتی ہے وہ آخری وقت تک قائم رہتی ہے وہ یوں کہ:

    1:۔اولاً اسرقم سےمضاربت و مشارکت کی جاتی ہے پھر اس سے حاصل ہونے والے منافع تصدق کیے جاتے ہیں ۔

    2 :۔ وقف پول قائم ہونے کے بعد جو بعد میں لوگوں کو جانب سے رقم دی جائے گی وہ وقف نہیں ہوتی اور یہی بعد میں ملنے والی ڈونیشن خرچ کی جاتی ہے ۔


    شرعی حل :

    میت کمیٹی کی بنیاد تکافل کے اصولوں پر استوارکی جائے !!وہ یوں کہ :

    1:۔وہ لوگجوکمیٹی کے انتظامات چلائیں گے مخصوص رقم کاایک وقف پول کریں ۔(لتعامل الناس علی قول الامام محمد رحمہ اللہ )۔

    2:۔ اس پول کا ایک مخصوص حصہ(جسے سمجھیں کہ اس کی ابھی ضرورت نہیں ) سے جائز مضاربت و مشارکت کر لی جائے ،البتہ اس میں اس بات کا خیال رہے کہ اس میں نقصان کا اندیشہ کم سے کم ہو۔

    فتح القدیر میں ہے:وَسُئِلَ أَبُو الْقَاسِمِ الصَّفَّارُ عَنْ شَجَرَةِ وَقْفٍ يَبِسَ بَعْضُهَا وَبَقِيَ بَعْضُهَا فَقَالَ: مَا يَبِسَ مِنْهَا فَسَبِيلُهُ سَبِيلُ غَلَّتِهَا، وَمَا بَقِيَ مَتْرُوكٌ عَلَى حَالِهَا۔ترجمہ: ابو القاسم الصفار سےایسے موقوفہ درخت کی بابت پوچھا گیا جس کا کچھ حصہ خشک ہو گیا اور کچھ باقی ہے تو آپ نے فرمایا:جو خشک ہو گیا اس کو(بیچکر ) غلہ بنا لیا جائے اور جو ٹھیک ہے اس کو اپنی حالت پر باقی رکھا جائے ۔(فتح القدير للكمال ابن الهمام جلد :6 صفحہ: 220، دار الفكر)

    تنقیح فتاویحامدیہ میں تاتارخانیہ کے حوالے سے ہے: تُوتٌ عَلَى أَرْبَابٍ مُسَمِّينَ فِي يَدِ مُتَوَلٍّ بَاعَ وَرَقَ أَشْجَارِ التُّوتِ جَازَ لِأَنَّهَا بِمَنْزِلَةِ الْغَلَّةِ۔ترجمہ: شہتوت کے درخت مخصوص لوگوں پر وقف تھے جو کہ متولی کی تولیت میں تھے،متولی نے شہتوت کے درختوں کے پتے بیچ دیے تو یہ جائز ہے اس لیے کہ یہ بمنزلہ غلہ کے ہے ۔ ( العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية جلد 1صفحۃ 113)

    3:۔وقف پول قائم ہونے کے بعد جو لوگ ڈونیشن دیں گے ان کی حیثیت واقف کی نہیں ہو گیا ،فقہی لحاظ سے ان کا چندہ وقف نہیں کہلائے گا۔

    4:۔ میت کمیٹی میں آنے والی ڈونیشن میں جوشرط رکھی گئی کہ اس سے وہی لوگ مستفید ہوں گےجو حسب ِ ضابطہ سالانہ ڈونیشن کریں گے اس میں موجود شرعی خرابی جس کاذکر ہم نے درج بالا سطور میں کر دیا ۔ اس شرعی خرابی کا تدارک یوں کیا جا سکتا ہے کہ اس میں یہ اضافہ کر دیا جائے کہ اس سے وقف پول سے اولاًواقفین و متصدقین مستفید ہوں گے پھراس کے بعد فقرا و مساکین یعنی جب متصدقیناور ان کی اولاد میں سے کوئی نہ رہے گاتو تابید (ہمیشگی ) کی شرط پھر بھی پائی جائے گی کہ فقرا تو موجود ہوں گے ،سو یہ سلسلہ منقطع نہیں ہو گا ۔

    نوٹ: لیکن اسوقف کے بیان ِ جواز کے لیے وقتاًفوقتاً کسی غریب و نادار کی بھی مدد کر دی جائے تا کہ کسی شبہ(فوقف المنقول علی النفس لایقول بہ واحد منھما کما فی رد المحتار) کا سرے سے شائبہ نہ رہے ۔

    انشورنس و تکافل میں فرق:

    انشورنس میں درج ذیل ناجائز عناصر پائے جاتے ہیں : (1)سود (2)قمار (3)غررکثیر

    تکافل مروّجہ انشورنس کا ایک ایسا جائز متبادل نظام ہےجس کی بنیاد وقف ،مضاربت و مشارکت پر رکھی گئی ہے،جہاں ایک وقف فنڈ بنایا جاتا ہے جس میں شرکاء ِ تکافل روپیہ وقف کرتے ہیں اور حادثہ پیش آنے کی صورت میں یہ وقف مقررہ شرعی اصول و ضوابط کےمطابق ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس وقف پول کے ڈونر ہوتے ہیں ۔

    انشورنس اور تکافل میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مروجہ انشورنس ایک ایسا عقدِ معاوضہ ہے جس میں سود قمارgambling اورغرر پایا جاتا ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا جبکہ تکافل کے نظام میں کوئی شرعی خرابی نہیں پائی جاتی نیزتکافل کا نظام عقدِ تبرع (وقف)پر مبنی ہے اور انشورنس عقدِ تبرع نہیں ہےبلکہ عقدِ معاوضہ ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

    کتبـــــــــــــــــــــــــــہ:محمدیونس انس القادری

    الجـــــواب صحــــیـح:ابو الحسنین مفتی وسیم اختر المدنی

    تاریخ اجراء:15 صفر المظفر ا1444 ھ/12 ستمبر 2022 ء