ایک مدرسہ کی تولیت کا مسئلہ
    تاریخ: 8 دسمبر، 2025
    مشاہدات: 2
    حوالہ: 366

    سوال

    ہمارے گاؤں چک 7 الف جنوبی بھلوال (سرگودھا) میں چار بھائی فیصل،سہیل،عرفان اور عزیر ہیں ان بھائیوں نے اپنے والد صاحب کے دسویں پر یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے والد صاحب کے ایصال ثواب کے لیے دو کنال جگہ مدرسہ کے لیے وقف کریں گے ۔ اور اس سلسلہ میں ان کی ایک مذہبی جماعت سے جگہ ان کے حوالے کرنے کی بات بھی ہو گئی۔ اور اس مذہبی جماعت نے شرعی تقاضے پورے کرنے کے لیے اس جگہ کا فرض بھی منگوایا چونکہ جگہ مشترکہ تھی تو ایک بھائی عرفان نے اپنے نام کا فرض ان کے حوالے کیا۔ اور بار بار اس مذہبی جماعت کو مدرسہ بنانے کے لیے کہتے رہے لیکن جب کافی عرصہ گزر گیا اور مدرسہ نہ بنایا گیا تو ان بھائیوں میں سے فیصل اور عرفان نے امام مسجد صاحب سے بات کر کے جگہ ان کے حوالے کر دی اور ان بھائیوں میں سے فیصل نے اعلانیہ کہا کہ یہ جگہ میں اپنے حصے میں سے دے رہا ۔ اور انہوں نے وہ ہی جگہ امام صاحب کے کہنے پر نئے بننے والے مدرسہ کے نام بھی کروا دی ۔اب اس میں مدرسے کی تعمیر بھی شروع ہے۔ لیکن ان بھائیوں میں سے عزیر کو یہ لگتا ہے کہ اس طرح پہلی مذہبی جماعت کو چھوڑ کر دوسرے کو دینا یہ شرعاً درست نہیں ہوا اس میں کوئی گنہگار ہے یا فیصل یا امام صاحب۔ اور یہ کہ اس نیک کام کا آغاز غلط طریقے پر ہوا لہذا عنداللہ مجرم ہیں ۔ مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ کیا اس عمل سے واقعتاً کوئی گنہگار ہے اور اگر ہے تو کون اور اس کا ازالہ یا کفارہ کیا ہو گا۔

    نوٹ:

    زمین 2010 میں والد صاحب نے کاغذی طور پر سب بچوں کے نام اپنی زندگی میں کروا دی تھی۔لیکن حد بندی نہیں تھی سب اکھٹے تھے۔اب اس میں فیصل نے اپنے حصے کی زمین بھائیوں کو صرف بتا کر کہ میں فلاں جگہ سے اپنے حصے کی جو زمین آتی ہے اس میں سے دارالعلوم کے نام کرواتا ہوں اور کروا بھی دی ۔

    سائل:مولانا حسنین علی چشتی

    بھلوال /سرگودھا


    بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

    اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں فیصل کا اپنے حصے کی زمین وقف کرنا اور اس کی تولیت امام صاحب کو سپرد کرنا باعث ِ ثواب ،کار ِخیرہے،جس میں اصلاً کسی قسم کا کوئی کراہت نہیں ۔یہ وقف ِصحیح تام ہو چکا اور امام صاحب کے حق میں اس کی تولیت ثابت ہو چکی۔سو کسی بھی بھائی کو رنجیدہ یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔

    اس حکم کی تفصیل یہ ہے کہ:

    یہ زمین بھائیوں کو والد کی جانب سے ہبہ میں ملی ہو یا وراثت کے طورپر دونوں صورتوں میں اس کی حیثیت مشترکہ بین الاولاد کی ہے۔ کسی شریک کا مشترکہ زمین میں سے اپنامتعین حصہ باقی شرکا کی اجازت کے ساتھوقف کرناجائز ہے۔

    باقی رہا مذہبی جماعت کو چھوڑ کر امام صاحب کو تولیت دینے کا مسئلہ؟

    اولاً : فیصل کے وقف اور امام صاحب کو تولیت دینے کا عرفان کے وقف سے کوئی تعلق نہیں کہ یہاں پرواقف فیصل جبکہ وہاں عرفان ہے دونوں تصرف اپنی اپنی ملکیت میں ہے ۔

    ثانیاً: اگر واقف فیصل کی بجائے سب بھائی ہوتے تب بھی حرج نہیںتھا کہ مشترکہ زمین کےسب شرکا ایک دوسرے کی اجازت کے ساتھ کسی حصے کو وقف کر نا جائز ہے ۔

    بدائع الصنائع میں ہے:"ومنها أن يكون الموقوف مقسوما عند محمد فلا يجوز وقف المشاع، وعند أبي يوسف هذا ليس بشرط، ويجوز مقسوما كان أو مشاعا۔ترجمہ:شرائطِ وقف میں سے امام محمد کے نزدیک یہ ہے کہ موقوفہ چیز قابلِ تقسیم ہو لہذا مشاع کا وقف آپ کے نزدیک جائز نہیں۔اور امام ابو یوسف کے نزدیک یہ شرط ہی نہیں موقوفہ چیز قابل تقسیم یا مشاع ہو بہر صورت اس کا وقف جائز ہے ۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع جلد 6 صفحہ ،220 دار الكتب العلمية)

    فللحنفي المقلد أن يحكم بصحة وقف المشاع وبطلانه لاختلاف الترجيح۔ترجمہ:حنفی مقلد کو اجازت ہے کہ وہ ترجیح کے اختلاف کی وجہ سے مشاع کے وقف کی صحت و بطلان(دونوں میں سے جسے چاہے اس) کا حکم دے ۔(رد المحتار،کتاب الوقف ،مطلب شروط الوقف ، جلد04صفحہ362،دار الفکر بیروت)

    علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :وَلَوْ بَيْنَهُمَا أَرْضٌ وَقَفَاهَا وَدَفَعَاهَا مَعًا إلَى قَيِّمٍ وَاحِدٍ جَازَ اتِّفَاقًا لِأَنَّ الْمَانِعَ مِنْ الْجَوَازِ عِنْدَ مُحَمَّدٍ هُوَ الشُّيُوعُ وَقْتَ الْقَبْضِ لَا وَقْتَ الْعَقْدِ، وَلَمْ يُوجَدْ هَاهُنَا لِوُجُودِهِمَا مَعًا مِنْهُمَا، وَكَذَا لَوْ وَقَفَ كُلٌّ مِنْهُمَا نَصِيبَهُ عَلَى جِهَةٍ وَسَلَّمَاهُ مَعًا لِقَيِّمٍ وَاحِدٍ لِعَدَمِ الشُّيُوعِ وَقْتَ الْقَبْضِ۔ترجمہ:اگر زمین دو لوگوں کے مابین مشترک تھی جسے دونوں نے وقف کر نے کے بعد ایک ہی متولی (شخص/ادارہ)کو سپرد کر دی تو یہ بالاتفاق جائز ہے ۔ اس لیے کہ امام محمد کے نزدیک (مشاع کے)جواز سے مانع بوقتِ قبضہ مشترکہ ہوناہے نہ کہ عقد کے وقت ۔اور (یہاں پر)بوقتِ قبضہ اشتراک نہیں پایا گیا اس لیے کہ دونوں (شریکوں)کی جانب سے عقد و قبضہ ایک ساتھ پایا گیا ہے۔(رد المحتار،کتاب الوقف ،مطلب شروط الوقف ، جلد04صفحہ348،دار الفکر بیروت)

    تبدیلیِ تولیت کا جواب:

    ورثا نے والد کے ایصالِ ثواب کے لیے مدرسہ کے لیے زمین وقف کرنے کا ارادہ کیا تھا جسے اصطلاح میں ارادۂِ وقف اور مذہبی جماعت کے حوالے کرنے کو ارادۂِ تولیتِ وقف کہیں گے۔اور مدرسہ کے تمامیت ِ وقف کے لیے ضروری ہے کہ قبضہ دے دیا جائے جو ک واقفین کی جانب سے مذہبی جماعت کو نہیں دیا گیالہذا پہلا وقف تام نہ ہوا ۔

    در مختار میں ہے:(وَلَا يَتِمُّ) الْوَقْفُ (حَتَّى يُقْبَضَ) وَفِي غَيْرِهِ بِنَصْبِ الْمُتَوَلِّي وَبِتَسْلِيمِهِ إيَّاهُ ابْنُ كَمَالٍ۔ترجمہ:جب تک قبضہ نہ دے دیاجائے وقف تام نہیں ہوتا ۔مسجد کے علاوہ میں قبضہ کا معنی یہ ہے کہ متولی کو مقرر کر کے موقوفہ چیز اس کے سپرد کر دی جائے ۔(الدر المختارجلد04صفحہ348،دار الفکر بیروت ملخصا)

    اور اس ارادہ کو پایۂِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ورثا کی جانب سے پیش رفت بھی ہوئی لیکن مذہبی جماعت کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔لہذا ایسی صورت میں شُرکا کا تولیت کسی اور کے سپرد کرنا جو مدرسہ کے تعمیراتی،انتظامی ،تعلیماتی معاملاتکو احسن طریقے سے چلا سکے یہ صرف جائز نہیں بلکہمستحب و ضروری تھا ۔ ہماری معلومات کے مطابق امام صاحب میں تولیت کی شرائط وخصوصیات موجود ہیں۔

    اللہ کریم جل شانہ فرماتا ہے:اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۵۸)۔ترجمہ:بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوںمیں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔(النساء:58)

    یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠(۵۹)۔ترجمہ:اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو (۱۶۹) یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔(النساء:59)

    متولی کے اوصاف اور خصوصیات:

    متولی ایسے شخص کو بنایا جائے جو(1)سنی صحیح العقیدہ مسلمان ۔(2)عاقل۔(3)بالغ ۔(4)دیانت دار۔(5)کام کرنے والا۔ (6) امانتدار ۔ (7) ہوشیار ۔(8)وقف کا خیر خواہ ہو ۔جس پر وقف کی حفاظت اورخیرخواہی کے متعلق اطمینان کافی ہو۔(9)فاسق نہ ہو ۔(10)لہو و لعب کا عادی نہ ہو ۔ (11)سست وکاہل نہ ہو۔

    سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں متولی کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” لائق وہ ہے کہ دیانت دارکار گزار ہوشیار ہو جس پر دربارہ حفاظت وخیرخواہی وقف اطمینان کافی ہو، فاسق نہ ہو جس سے بطمع نفسانی یا بے پروائی یاناحفاظتی یا انہماک لہو ولعب وقف کو ضرر پہنچانے یا پہنچنے کا اندیشہ ہو بدعقل یا عاجز یا کاہل نہ ہو کہ اپنی حماقت یا نادانی یا کام نہ کرسکنے یا محنت سے بچنے کے باعث وقف کو خراب کرے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد16، صفحہ557،رضافاونڈیشن،لاہور)

    ھذا ماعندی واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

    کتبــــــــــــــــــــــــــہ:محمدیونس انس القادری

    الجـــــواب صحــــیـح:ابو الحسنین مفتی وسیم اختر المدنی

    تاریخ اجراء:17 شعبان المعظم 1444 ھ/10 مارچ2023 ء